چاندنی میں غبار تیرا ہے
حسرتوں کا مزار تیرا ہے
رونقیں گم ہیں جو چراغوں کی
ہم پہ اب اختیار تیرا ہے
جام اشکوں کے ہیں مقابل پر
آنکھ کو انتظار تیرا ہے
دیں گے ہم ہر حساب بوندوں کا
سایہ لیکن ہزار تیرا ہے
کیسے دل کی تسلی ہو ممکن
اس کو بس اعتبار تیرا ہے
جستجو ہے بہار کی کس کو
گھر یہ اجڑا دیار تیرا ہے
یاد ہیں مست سی نگاہیں وہ
ان پہ اب بھی خمار تیرا ہے
دل کی دھرتی سے دور صحرا تک
سب محبت پیار تیرا ہے
پوچھتے ہو گلوں سے کیا شاہد
رنگ ہر آشکار تیرا ہے

0
23