ہماری چشمِ حیراں کا، کوئی اب مدعا ہوگا؟
جو دل سے درد اٹھتا ہے، وہ کیا جانِ وفا ہوگا؟
نہ پوچھو کیفیت دل کی، عجب یہ ماجرا گزرا
کہ ہر اک زخمِ تازہ اب، گُلِ رنگیں نما ہوگا
یہ مانا بے بسی اپنی، مگر شکوہ نہیں کوئی
جو ہونا ہے سو ہو جائے، نہ کوئی آسرا ہوگا
چلے آؤ کہ محفل میں، کوئی اب دم نہیں باقی
تمہاری اک نظر سے ہی، نیا کوئی گلہ ہوگا
زمانہ ساز ہے سارا، یہاں کا پیار بھی جھوٹا
نہ کر اس پر بھروسہ تو، بڑا اس کا دغا ہوگا
نہ لائے تھے، نہ لے جائیں گے، کچھ اس دہر سے یارو
جو دل کا بوجھ ہے اپنا، وہی اب رختِ پا ہوگا
یہ مستی، یہ جنوں کی حد، کہاں تک اب رکے گی یہ
کسی دن تو یہ افسانہ، سرِ بازار جا ہوگا
ندیمؔ اب چھوڑ یہ باتیں، کہاں غالب سا وہ رتبہ
بس اپنا حالِ دل کہہ دے، یہی اب تذکرہ ہوگا

0
3