| سکونِ قلب ملتا ہے بشر کو باخدا ہو کر |
| اسی کے در پہ جاتا ہے جبھی توبا صفا ہوکر |
| عطا کی روح کو اگلے جہاں میں جاوداںنی شکر |
| گزر جاتا وگر انساں جہاں سے بے بقا ہو کر |
| ترے دیوانے جب بھی دید کو مشتاق ہوتے ہیں |
| تو چل دیتے تری گلیوں کو وہ آشفتہ پا ہو کر |
| بھروسہ تم پہ اتنا تھا کہ خود پر بھی نہیں ہوتا |
| ڈبودی کشتی کیوں الفت کی تم نے ناخدا ہوکر |
| جو چاہو روند ڈالو یا بنا لو اس پہ گھر اپنا |
| تمہاری راہ میں بکھرے ہیں ہم تو خاکِ پا ہو کر |
| بہت فرعونیت تم نے دکھا لی اب تو بس کردو |
| بشر ہو تم بنو عاجز، دکھاؤ مت خدا ہو کر |
| کوئی کتنا بھی کچھ کر لے کبھی دائم نہیں رہتا |
| ختم ہو جائے گا انسان تُو اک دن فنا ہوکر |
| میں کوئی بات بھی تم سے کہوں تو کس طرح آخر |
| ذرا سی بات پر چل دیتے ہو مجھ سے خفا ہو کر |
| تمہاری بات میرے واسطے اکسیر ہوتی ہے |
| تمہاری پھونک بھی لگتی ہے اب مجھ کو شفا ہو کر |
| میں جب بھی سوچتی ہوں تو تمہاری خیر ہی چاہوں |
| تمہارے واسطے یہ سانس چلتی ہے دعا ہو کر |
| اسیری تیری سوچوں کی بہت مجھ کو پیاری ہے |
| نہیں جانا مجھے اس قید سے ہر گز رہا ہو کر |
| نہیں جا سکتی اب میں زندگی بھر چھوڑ کے تجھ کو |
| ترے در کی رہوں گی میں سراپا بس وفا ہو کر |
| تمہاریں پاک ہیں باتیں فرشتوں سے تری سوچیں |
| تو اپنے نام کے جیسی دکھادے طاہرہؔ ہو کر |
| طاہرؔہ مسعود (باد صبا) |
معلومات