متَفاعلن متَفاعلن متَفاعلن متَفاعلن
مجھے آرزوئے وصال ہے، نہ گمانِ باغِ عدن کوئی،
وہ نشاطِ آہِ سحر گہی، نہ رہا وقارِ چمن کوئی
یہ مقامِ خاک نشیں بھی ہے، یہ بلندیوں کا فسوں بھی ہے،
نہ بہارِ دل کا نشاں ملا، نہ خزاں سے کم ہے چمن کوئی۔
وہ نظر جو اہلِ نظر تھی کل، وہ نظر بھی خود سے خفا ہوئی،
نہ رہا وہ سوزِ درونِ جاں، نہ رہا سخن میں بدن کوئی۔
میں تلاش کرتا رہا اُسے، جو مِرے خیال میں بس گیا،
نہ ملا وہ چہرہ کسی کو بھی، نہ ملی وہ نورِ کرن کوئی۔
یہ نظامِ وقت کی دوڑ ہے، یہ طلسمِ عقل کا کھیل ہے،
نہ یقیں رہا نہ گماں رہا، نہ رہا سبب نہ چلن کوئی۔
تری یاد اب بھی لہو میں ہے، ترے نام کا ہے نشاں ابھی،
نہ مٹا وہ حرفِ وفا مرا، نہ ہوا خفا وہ سجن کوئی۔
ابھی تو بھی ارشدؔ امید رکھ، کہ طلوعِ مہر کی خیر ہو،
نہ رہے یہ شب کا اندھیرا بھی، نہ بجھے دلوں کی لگن کوئی،
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی

0
4