| اس کی ناراضی بجا میری خطا ہے تو سہی |
| مان جانا بھی مگر اس کی ادا ہے تو سہی |
| چھوڑ کر جاتے ہوئے اس نے پلٹ کر دیکھا |
| اس جنا کار میں تھوڑی سی وفا ہے تو سہی |
| تو نہیں وصل پہ مائل تو نہیں میں بھی بضد |
| تو تصوّر میں مرے جلوہ نما ہے تو سہی |
| ظلمتِ ہجر کے تاریک نہاں خانوں میں |
| وصل کی یاد کا اک جلتا دیا ہے تو سہی |
| چاک پیراہنِ فرقت کو چھپانے کے لئے |
| جاں فزا وصل کی یادوں کی ردا ہے تو سہی |
| چارہ گر یوں نہ بھٹک میری دوا کی خاطر |
| تیرے ہونٹوں کی حلاوت میں شفا ہے تو سہی |
| شکر پھر کیوں نہیں کرنا ہے یہ انساں آخر |
| کس قدر نعمتیں دیتا خدا ہے تو سہی ہے |
| عمر بھر کس نے زمیں پر ہے بسیرا کرنا |
| زیست نے موت کا بھی چکھنا مزا ہے تو سہی |
| کب تلک جسم کے زنداں میں رہے بن کے اسیر |
| آخرش روح کو بھی ہونا رہا ہے تو سہی |
| جانے کب اس پہ اثر میرے سخن کر جائیں |
| نظموں غزلوں کو سحاب اس نے سنا ہے تو سہی |
معلومات