کانچ پلکوں سے اٹھانے پڑتے
حال گر دل کے سنانے پڑتے
ٹوٹے رشتوں کا بتانا پڑتا
داغ سینے کے دکھانے پڑتے
راستے کٹتے اندھیروں میں جو
خط لکھے تیرے جلانے پڑتے
عشق کے ہوتے سفر کچھ تنہا
چاند بھی شب کو بلانے پڑتے
زندگی ہوتی بہت ہی مشکل
ہجر کے جشن منانے پڑتے
گردش دوراں سے ڈر جاتے ہم
آنکھ کو اشک بہانے پڑتے
کون دھڑکن میں ٹھہرتا دل کی
غم کلیجے سے لگانے پڑتے
مے کشی ہم نہ سمجھتے شاہد
ٹوٹے گر من نہ سجانے پڑتے

22