چاندنی رات میں صحرا کا بھی دل ہو جیسے
خامشی دور کہیں گونجتی تھل ہو جیسے
چپ کی دیوار پہ رکھے ہوئے لمحے سارے
کھلتے ہیں زخم کہ بارش میں غزل ہو جیسے
زیست کو زیر و زبر دیکھ کے محسوس ہوا
پھیلنے اور سمٹنے کا عمل ہو جیسے
آگرہ شہر کی ممتاز خصوصیت ہے
سنگ مرمر کا حسیں تاج محل ہو جیسے
مجھ سے بچھڑا ہے وہ اک شخص، مگر ہر لمحہ
میرے سینے میں کوئی گم شدہ پل ہو جیسے
خود کو تنہائی کے ساحل پہ کھڑا پاتا ہوں
اور یہ دل، ٹوٹ کے بکھرا ہوا کل ہو جیسے
چاند پانی کے کنارے پہ کھڑا ہے عاصم
سوچ میں ڈوبا ہوا کوئی کنول ہو جیسے

0
13