| گرفتارِ بلا کو دیکھنے سرکار آئیں گے |
| دلِ وحشی سکوں پالے ترے غمخوار آئیں گے |
| گروں گا جس قدر بھی میں مجھے اتنا یقیں تو ہے |
| اٹھانے کے لئے حامی مرے ہر بار آئیں گے |
| شہا چلنے لگا ہوں میں مجھے تم دیکھتے رہنا |
| سنا ہے راستے میں مرحلے دشوار آئیں گے |
| تری جانب مسافت کی نیت کر کے چلا ہوں میں |
| مگر آڑے مرے بچے مرا گھر بار آئیں گے |
| امیروں پر کرم اتنا کہ جب چاہیں حضور آئیں |
| ترے در پر کہاں ہم سے نرے نادار آئیں گے |
| ذرا دم لو قضا و قدر پر معمور اے پیاروں |
| مرے مالک مرے مولا مرے مختار آئیں گے |
| درودوں اور سلاموں کے نچھاور پھول کر دوں گا |
| لحد میں جب مری وہ سیدِ ابرار آئیں گے |
| ہمیں نعلین کے نیچے چھپا کر آپ رکھ لینا |
| کہ دامن میں ترے تو صاحبِ کردار آئیں گے |
| چلے گی آپ کی مرضی سرِ میدانِ محشر میں |
| وہاں پر کام تو کب درہم و دینار آئیں گے |
| فضائے حشر میں گونجے گا پھر لبیک کا نعرہ |
| لحد سے جب نکل کر قادری میخوار آئیں گے |
| جہنم سے رہائی کی ملیں گی چٹھیاں تم سے |
| تمہارے نام لیوا جب سوئے غفار آئیں گے |
| تمہی نباض عالم ہے مرادِ دل تمہی دوگے |
| جو گرتے پڑتے تیرے پاس ہم بیمار آئیں گے |
| تسلی بخش اس کی یاد کا ہے سلسلہ جامی |
| ابھی کچھ دیر میں وہ بھی سرِ دربار آئیں گے |
معلومات