| آگ سلگائی ہے تو شعلوں کو ہوا بھی دو |
| آگے اب جانِ جہاں سلسلہ بڑھا بھی دو |
| / |
| کب تلک بھیجو گے خاموشیوں کے ہاتھ خطوط |
| اب کبھی دل سے پکارو کبھی صدا بھی دو |
| / |
| پھر کہیں زرد نہ پڑ جائیں خوابوں کی کلیاں |
| کھول کر ان لبوں کے قفل، مسکرا بھی دو |
| / |
| کب سے بیٹھا ہوں نظر کے نشانے پر بے تاب |
| تیر نظروں سے مری جان اب چلا بھی دو |
| / |
| سال ہا سال مناتے رہے فراق اس کا |
| اے دلِ زار اب اس لڑکی کو بھلا بھی دو |
| / |
| گھاٹ پر جس کے جلاتے رہے ہو اپنا بدن |
| استھیاں اپنی اسی گنگا میں بہا بھی دو |
| / |
| پیاس ہی میری کہیں بجھ نہ جائے بے پیے ہی |
| انتظار اور بھلا کتنا اب پلا بھی دو |
| / |
| تم جدائی ہی اگر چاہتے ہو چپ کیوں ہو |
| کر دیا فیصلہ تو فیصلہ سنا بھی دو |
| / |
| کب تلک پھرتے رہیں در بہ در یوں بے منزل |
| ختم ہوگا سَفرِ ذات کب بتا بھی دو |
| / |
| اس پری زادی کا کب تک بدن سنوارو گے |
| صبح بھی ہونے لگی اب دیا بجھا بھی دو |
معلومات