عجب یہ زندگی ٹھہری، عجب اس کا فسانہ ہے
نہ کوئی غم ہے جینے کا، نہ کوئی اب بہانہ ہے
یہ دل کیا جانے کیا چاہے، یہ دل کس کا دوانہ ہے؟
نہ کوئی بزم ہے اس کی، نہ کوئی آشیانہ ہے
یہاں خود سے نہیں نسبت، عجب یہ بیقراری ہے
جو دل میں بس گیا اپنے، وہی اب بے وفائی ہے
یہ مے خانے کا عالم ہے، یہاں سب کچھ میسر ہے
جو دل چاہے سو پی لینا، یہی اب آب و دانہ ہے
یہ مانا بے خبر ہیں ہم، مگر سب جانتے ہیں ہم
کہ دنیا اک تماشا ہے، یہ رنگین اک زمانہ ہے
نہ لایا تھا کوئی وعدہ، نہ کوئی اب امید اس سے
یہ اپنا دل بھی پاگل ہے، یہ اپنا دل بھی شانہ ہے
جوانی روٹھ کر چل دی، مگر ہم شادماں اب بھی
خوشی سے جی رہے ہیں ہم، یہ اپنا رند خانہ ہے
ندیمؔ اب شاعری چھوڑو، یہ سب کچھ خواب و باطل ہے
کہاں غالب کی وہ باتیں، کہاں یہ لب کشانا ہے

0
5