| ہر حُسن ہے مدحتِ روئے نازنیں |
| بُوئے زلفِ دلبریں، مثلِ عنبریں |
| پنہاں ہے عالم سے جانِ جاں تُو کہیں |
| آ کبھی تو طُور پر اے پردہ نشیں |
| لو چلے اب عالمِ مدہوشی میں ہم |
| ہو گئے وہ آج ملبوسِ مرمریں |
| اب دلِ مردہ کو کیا سینے میں رکھیں |
| بعد تیرے تو یاں رہتا کوئی نہیں |
| رمزؔ ہے اب راہ سے بھٹکا اس قدر |
| تھام میرا ہاتھ اے دستِ نازنیں |
معلومات