ہم کہاں کے جگ کو سزا دیتے ہیں
چوٹ کھا کے بھی دعا دیتے ہیں
ہم تڑپتے ہیں چراغوں کے لئے
غم جنہیں روز بجھا دیتے ہیں
شام ہوتے ہی چلے آتے ہیں
جل کے راتوں کو ضیا دیتے ہیں
رکھ کے مینا و سبو محفل میں
جام ہاتھوں سے پلا دیتے ہیں
ہم بھرم رکھتے ہیں ساقی کا بھی
نیند پلکوں سے اڑا دیتے ہیں
ہم نہیں تھکتے کبھی راہوں میں
پھول صحرا میں کھلا دیتے ہیں
لوگ کہتے ہیں محبت جس کو
عشق وہ سب کو سکھا دیتے ہیں
ہم ہیں بکھری ہوئی زلفوں والے
موت شاہد کو بھلا دیتے ہیں

0
44