| غم نہیں کیجیے دریا کو اتر جانا ہے |
| چاہے فرعون کا لشکر ہو بکھر جانا ہے |
| آسماں بھی ترے ہونے سے سنور جانا ہے |
| کہکشاں کو ترے قدموں میں بکھر جانا ہے |
| کوئی امید نظر آے ستارہ بن کر |
| راہ میں صبح کی اب جاں سے گزر جانا ہے |
| زہر پھر زہر ہے تم صبر ذرا کر دیکھو |
| اک ذرا دیر میں اس کا بھی اثر جانا ہے |
| ہے یہ دنیا جو سراۓ تو مسافر تم ہو |
| ایک دن لوٹ کے تم کو بھی تو گھر جانا ہے |
معلومات