دیکھنے لگ گیا ہر ستارہ مجھے
پیار سے جب بھی اس نے پکارا مجھے
اس جہاں میں فقط اک حقیقت ہو تم
باقی ہر شے لگے استعارا مجھے
اب کے سود و زیاں سے مبرا ہوں میں
راس آنے لگا ہے خسارہ مجھے
ہر طرف ہیں تعصب کی پرچھائیاں
کس زمانے میں مولا! اتارا مجھے
شہرِ آشوب کی ہر گلی مضطرب
دیکھنا چاہتی ہے دوبارہ مجھے
کیسے ممکن تھا پھر روکتا خود کو میں
منزلیں دے رہی تھیں اشارہ مجھے
تب کہیں جا کے پایا تھا اس کا نشاں
خود سے کرنا پڑا تھا کنارہ مجھے
تجھ کو اخبار نے کیا بتایا نہیں
میری شہرت نے بے وقت مارا مجھے

0
2