ایک ظالم سے کیسے پیار کریں
زیست کو کیسے خارزار کریں
مصلحت ہے اِدھر تو پیار اُدھر
کونسی راہ اختیار کریں
زندگی بھر رہی یہی الجھن
تجھ سے نفرت کریں کہ پیار کریں
کیا یہی ہے صلہ محبت کا
عمر بھر تیرا انتظار کریں
دشمنوں کا کروں میں کیوں شکوہ
جبکہ اپنے ہی مجھ پہ وار کریں
زندگی جیسےکوئی طوفاں ہے
ایسے دریا کو کیسے پار کریں
کتنی مطلب پرست ہے دنیا
کیسے اپنوں پہ اعتبار کریں
لیڈروں نے کیا ہمیں برباد
آج ہم کس پہ انحصار کریں
کیا جنوں کا یہی تقاضہ ہے
اپنے دامن کو تار تار کریں
زر پرستی کا دور ہے سیدؔ
اس میں کس کس کا ہم شمار کریں

218