| سکون دل کو بہت ہے کوئی ستائے مجھے |
| غموں کی آگ لگا کر کوئی جلائے مجھے |
| ستم تو یہ ہے ستم گر ستم نہیں کرتا |
| خوشی سے اوب گیا دل کوئی رُلائے مجھے |
| بنے ہیں جان کے دشمن ، جنون اور خرد |
| میں کس کی آئی مروں گا کوئی بتائے مجھے |
| جو ہر قدم پہ مرے درد بانٹا کرتا تھا |
| بچھڑ گیا ہوں میں اُس سے کوئی ملائے مجھے |
| زمانے بھر کے طوفاں ہیں مرے تعاقب میں |
| بھنور میں ہے مری کشتی،کوئی بچائے مجھے |
| کوئی تو آکے میرے درد کا مداوا کرے |
| میں رو چکا ہوں بہت اب کوئی ہنسائے مجھے |
| یہ خواب مار ہی ڈالیں نہ مجھ کو اے شائم |
| خدارا ، نیند سے، آکر کوئی جگائے مجھے |
معلومات