| پہلے سارِق نے زمیں ہی تھی اٹھائی میری |
| پھر غزل پوری کی پوری ہی چرائی میری |
| گر کسی نے جو غزل اس کو دکھائی میری |
| طیش میں آ کے غزل اس نے جلائی میری |
| دودھ سے مکھی کی مانند نکالا اس نے |
| محفلوں میں جو سنی مدح سرائی میری |
| سامنے ڈھونگ رچاتا ہے ملنساری کا |
| میرے جاتے ہی کرے خوب برائی میری |
| ہر مہینے ہی کراتی ہے ٹیونگ بیگم |
| سالوں کے ہاتھوں سے کروا کے دھلائی میری |
| چھوڑ کر سردی میں بیگم ہے گئی پر حد ہے |
| لے گئی چھین کے اکلوتی رضائی میری |
| کٹ ہی جائی گی رضائی کے بنا بھی لیکن |
| دب کے رہ جائے گی برفوں میں دہائی میری |
| آبلہ پائی ملے اس کو مقدر میں سحاب |
| جس نے مسجد سے نئی جوتی اٹھائی میری |
معلومات