تو سمندر ہے تو ہی ساحل ہے
ہم سفر ہے تو ، تو ہی منزل ہے
تیری الفت ہے سنگ در اپنا
ہر دعا کا تو میری حاصل ہے
کب جلاتا ہوں کوئی دیپک میں
حسن تیرا ہی جب مقابل ہے
چاند ہے تو ہی چودہویں شب کا
بھیڑ میں جگ کی روپ کامل ہے
کم نہیں ہوتا غم محبت کا
عشق مے ساقی گو کہ محفل ہے
گر نہ ہو ان میں یار کی خوشبو
ذات پھولوں کی کس کے قابل ہے
پوچھتا کیوں ہے حال تو شاہد
زندگی جب تو ، تو ہی قاتل ہے

0
29