| ہر روز کے بہانوں سے تنگ آ گئے تھے ہم |
| سچ پوچھئے زمانوں سے تنگ آ گئے تھے ہم |
| وہ بھی خفا خفا یونہی رہتا تھا آج کل |
| رشتوں کے ترجمانوں سے تنگ آ گئے تھے ہم |
| کچھ اس لیے بھی ترِک تعلق ہی کرنا تھا |
| بے کار امتحانوں سے تنگ آ گئے تھے ہم |
| سانسوں کی بازگشت سے ڈرتے تھے سائے بھی |
| سہمے ہوئے مکانوں سے تنگ آ گئے تھے ہم |
| کچھ لمس کا سراب تھا، کچھ یاد کا گماں |
| ان وہم کے گمانوں سے تنگ آ گئے تھے ہم |
| رسوائیوں نے میری تو ہمت ہی توڑ دی |
| کچھ لوگوں کی زبانوں سے تنگ آ گئے تھے ہم |
معلومات