| چراغ جلتے ہیں پر روشنی کہیں بھی نہیں |
| جی تو رہے ہیں مگر زندگی کہیں بھی نہیں |
| یہ شہر سویا ہے گہرا سکوت اوڑھے ہوے |
| صدائیں گونجتی ہیں، آگہی کہیں بھی نہیں |
| خرید لیتے ہیں آسانی سے ضمیر سبھی |
| یہاں پہ بکتے ہیں سب بندگی کہیں بھی نہیں |
| گلاب ٹوٹ کے بکھرے ہیں ہر گلی کوچے |
| ہوا تو چل رہی ہے، تازگی کہیں بھی نہیں |
| ہزار تاج ہیں سر پر مگر یہ حیرت ہے |
| غرورِ تخت ہے بس آدمی کہیں بھی نہیں |
| ستارے توڑ کے لائے ہیں سب زمیں والے |
| فلک پہ روشنی ہے دل کشی کہیں بھی نہیں |
| قلم کو بیچ کے منبر پہ جا کے بیٹھے ہیں |
| قلم تو چلتی ہے پر آگہی کہیں بھی نہیں |
معلومات