| لرزہ بر اندام ہے دیوار ِدل |
| اور بڑھتی جائے ہے رفتارِ دل |
| پہلے بھی ٹوٹا ہزاروں مرتبہ |
| اب کے گہری چوٹ ہے معمارِ دل |
| کون کوئی کیسے، کب تک ،کس طرح |
| کیوں سنبھالے گا مجھے مختارِ دل |
| اب دکاں شاید بڑھانی ہی پڑے |
| بند ہوتا جائے ہے بازارِ دل |
| اپنے ہاتھ آیا نہیں یہ عمر بھر |
| کیا کہیں کیسا رہا کردارِ دل |
| پوچھنا تو چاہیے اس سے صمیم |
| اب جیے گا کس طرح بیمارِ دل |
معلومات