| چلو اب رات ہے کافی |
| چلو اب سو گیا ساقی |
| چلو گھر کو نکلتے ہیں |
| نہیں ہیں جام اب باقی |
| چلو گھر کو نکلتے ہیں |
| چلو جھومے ہی چلتے ہیں |
| کہ اب موسم ہے آبیدہ |
| کہ اب ہم سب ہیں رنجیدہ |
| کہیں عہد و وفا کی بات |
| کہیں گر ہجر کی وہ رات |
| بے موسم سی وہ اک برسات |
| کہیں وہ ٹوٹتے جذبات |
| اگر ان کا ذکر نکلا |
| تو اپنا حشر پھر نکلا |
| کھلے گا پھر فسانہ اک |
| لگے گا پھر زمانہ اک |
| یوں انکو بھول جانے میں |
| کبھی نا یاد آنے میں |
| کہ خود کو پھر ہرانے میں |
| یوں لڑنے میں لڑانے میں |
| لگے گا پھر زمانہ اک |
| کھلے گا پھر فسانہ اک |
| یہ دل کو بات سمجھاتے |
| وہ ہر گز بے وفا نا تھے |
| کہ جو تھوڑا تعلق تھا |
| فقط چھوٹی سی غلطی تھی |
| ذرا سی آگ تھی بس اک |
| جو خوابوں میں ہی جلتی تھی |
| تمنائیں تھی جتنی بھی |
| فقط مجھ میں سلگتی تھی |
| کہ ان کا کیا تعلق تھا |
| مجھے کس بات کا حق تھا |
| کہ میں ان سے وفا چاہوں |
| یہ قیدِ با جفا چاہوں |
| کہ بس اپنا بھلا چاہوں |
| وہ باَلکل حق بجانب تھے |
| کہ گر وہ جان غالب تھے |
| تو مجھ کو توڑ سکتے تھے |
| تعلق چھوڑ سکتے تھے |
| وفا بھنبھوڑ سکتے تھے |
معلومات