ایک دوجے کی نظر میں تاکتے رہ جائیں گے
اور دیواروں پہ لٹکے آئنے رہ جائیں گے
ہم پسِ دیوار ہو جائیں گے جب چلتے ہوئے
وہ سرِدیوارہم کو ٹانکتے رہ جائیں گے
دیکھنا تھک کر کہیں سو جائیں نا یہ راستے
نیند سے بوجھل مسافر جاگتے رہ جائیں گے
چیختے رہتے ہیں کوئی کان تک دھرتا نہیں
ہم جو چپ ہوجائیں سارے چیختے رہ جائیں گئے
لفظ مر جائیں گے سارے ذہن میں رکھے ہوئے
خالی کاغذ پر فقط کچھ حاشیے رہ جائیں گے
ٹھنڈی ہو جائےگی چائے میز پر رکھی ہوئی
اور ہم اک دوسرے کو دیکھتے رہ جائیں گے
ایک دن بولیں گے میرے شہر کے گونگے سبھی
ایسا بولیں گے کہ اندھے دیکھتے رہ جائیں گے
اشک رہ جائیں گے دو آنکھوں کی پلکوں پر علی
اور سماعت میں ہمارے قہقہے رہ جائیں گے

0
37