| دنیا کو دامِ شر میں پھنسائے ہے مولوی |
| مطلب کو اپنے جوب بھُنائے ہے مولوی |
| ٹھنڈا کِیا نہ اِس نے کلیجا کسی کا بھی |
| سینے میں آگ سب کے لگائے ہے مولوی |
| تیتر بٹیر و مرغ ہی اِس کو پسند ہے |
| بوٹی سے بوٹی مِینج کے کھائے ہے مولوی |
| خَنّاس کی سراپا ہاں تفسیر ہے یہی |
| لیکن فرشتہ خود کو جتائے ہے مولوی |
| کیجے جو اِس سے بات تو کرتا ہے بات خوب |
| لیکن عمل سے جان چرائے ہے مولوی |
| علمی بخار اپنا یہ لوگوں پہ جھاڑے ہے |
| اِس طرح سب پہ رعب جمائے ہے مولوی |
| دنیا میں سگِ دنیا کی تمثیل ہے یہی |
| کاٹے ہے سب کو اور ڈرائے ہے مولوی |
| بنتا ہے پاکباز یہ ایسا کہ الامان |
| ظاہر سے اپنی سب کو رجھائے ہے مولوی |
| خود اپنی عورتوں کے بھی لائق نہیں ہے پر |
| حوروں کا خواب دل میں سجائے ہے مولوی |
| کبر و ریا کا پیکرِ سنگین ہے یہی |
| ایسی ہی خصلتوں میں نہائے ہے مولوی |
| بھرنے کو پیٹ اپنا یہ مانگے زکات ہے |
| مالِ غریب کھائے اڑائے ہے مولوی |
| عزّت بھی درس گاہ کی پامال یہ کرے |
| طلاب سے بھی لطف اٹھائے ہے مولوی |
| اُمّت لہو لہان اِسی کے ستم سے ہے |
| فتنوں کا تیر خوب چلائے ہے مولوی |
| طرزِ حرام کو یہی کرتا حلال ہے |
| پھر لذّتِ حلالہ اٹھائے ہے مولوی |
| خطبے میں نیچی نظروں کی حکمت بیاں کرے |
| بازار میں نظر بھی لڑائے ہے مولوی |
| حیران اس کے مکر سے ابلیس ہے *اثر* |
| اُس کے بھی ہوش روز اُڑائے ہے مولوی |
معلومات