| آ لگا دنیا کے ساحل پر سفینہ نور کا |
| ذاتِ سرکارِ دو عالم ہے مدینہ نور کا |
| نور کی طلعت میں دیکھیں آمنہ بی شام کو |
| آمنہ پر رنگ چھایا بھینا بھینا نور کا |
| تم بہارِ دہر کی تخلیق کی بنیاد ہو |
| کیوں عطا ہوتا نہ پھر تجھ کو مہینہ نور کا |
| تم رسالت کے چمن کا آخری مہتاب ہو |
| تم نبوت کے عمامہ پر نگینہ نور کا |
| کوئی بھی کیا پا سکا پیارے حقیقت نور کی |
| تم کو حق نے کردیا ہے آب گینہ نور کا |
| لوٹ لو اے مفلسو بابِ سخاوت ہے کھلا |
| بٹ رہا ہے آج کی شب میں خزینہ نور کا |
| اک تجلی طور پر چمکی تھی موسیٰ کے لئے |
| جگمگاتا آج تک ہے طور سینا نور کا |
| تیری آنکھوں پر بلا کے سارے جلوے رکھ دئیے |
| لازمی ہے دید کی خاطر قرینہ نور کا |
| سرد ہو جائے جہنم ایک قطرہ جو گرے |
| پونچھ لے محبوب ماتھے سے پسینہ نور کا |
| راستے سارے تمہاری سمت آ کر رک گئے |
| تم خدا کی سمت جانے کا ہو زینہ نور کا |
| نور کے صدقے ملی ہیں زندگی کی رونقیں |
| کاش ساری زندگی ہو جائے جینا نور کا |
| جامی ان کے در کے ٹکڑے مل رہے ہیں چین سے |
| ان کے در سے چل رہا ہے کھانا پینا نور کا |
معلومات