آج کا موضوع ۔

       " حقیقی محبت اللہ تعالی کی ہے"

پیارے دینی دوستو!!!

السلام و علیکم و رحمتہ اللہ و بر کا تہ!

امید کرتی ہوں کہ آپ سب خیریت سے ہونگے، اللہ تعالی آپ سب کو ہمیشہ خوش رکھے اور اپنے کرم سے آپ سب کی تمام مشکلات اور پریشانیاں دور فرمائے آمین یا رب ۔

پیارے دوستو ایک بار پھر سے آپکی بہن صباء آپ لوگوں کے ساتھ ایک نئے اور منفرد موضوع کے ساتھ حاضر ہوئی ہوں، امید کرتی ہوں کہ آج کا موضوع آپ سب کے لئے میرے تمام پچھلے موضوعات کی طرح سبق آموز ثابت ہو گا اور آج کے اس نئے موضوع سے آپ سب کو سیکھنے کو بہت کچھ ملے گا ۔ تو موضوع شروع کرنے سے پہلے آپ سب سے گزارش کرتی ہوں کہ آپ سب آخر میں اپنی قیمتی رائے سے مجھے ضرور آگاہ کریں ۔ تاکہ آئندہ آپکو میرے نئے نئے موضوعات سے واقفیت ہو سکے ۔ ان شاء اللہ ۔

آج کا موضوع میرے نزدیک بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ آج میں نے سوچا کہ آپ سب کو اللہ تعالی کی حقیقی محبت سے روشناس کروا دوں ۔ دوستو! میری کوشش ہوتی ہے کہ میں جو کچھ بھی لکھوں اس میں آپ سب کے لئے ایک نصیحت کا پیغام ہو ۔ میرے موضوعات صرف الفاظ نہیں ہوتے، بلکہ یہ میرے خیالات کی عکاسی کرتے ہیں ۔ میری سوچ بہت پاکیزہ ہے اور میری سوچ یہی ہے کہ میں اپنی سچائی سے آپ سب کا دل جیت سکوں ۔ تو چلیے دوستو اپنے موضوع کی جانب قدم بڑھاتے ہیں ۔

آج کا موضوع ۔ اللہ کی رضا ہے ۔ دوستو!!! اللہ تعالی کی مھبت دنیا کی تمام محبتوں سے زیادہ سچی اور پاکیزہ ہے ۔ یعنی دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دنیاوی محبتوں کو زوال ہے، مگر اللہ تعالی کی مھبت کو زوال نہیں ہے ۔ کیونکہ جتنی محبت اللہ تعالی ہم سے کرتے ہیں اتنی محبت کوئی ہم سے کر نہیں سکتا ۔ ہم ہمیشہ دنیا کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں ۔ اور دنیا کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ہم اتنے مگن ہو جاتے ہیں ۔ کہ ہم اپنے مقصدحیات کو بھول جاتے ہیں ۔ اور یہ بات انتہائی خطرناک ہے ۔

یہ بات سچ ہے، کہ جب انسان اس دنیا میں اپنی آنکھیں کھولتا ہے تو اسے سب سے زیادہ والدین کی توجہ اور انکی شفقت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ پھر جیسے جیسے وہ بچپن سے جوانی کی طرف قدم بڑھاتا ہے تو اسے زندگی گزارنے کے لئے ایک نیک اور مخلص ہمسفر کی تلاش ہوتی ہے ۔ گویا اس کی ساری زندگی کسی نہ کسی کی تلاش میں گزر جاتی ہے ۔ انسان محبت کا متلاشی ہوتا ہے ۔ وہ دنیاوی محبت کو پانے کے لئے اپنی ذات کی نفی بھی کر گزرتا ہے ۔ پھر بھی وہ تنہا ہی رہتا ہے ۔

اس کی بھوک کبھی ختم نہیں ہوتی ۔ کبھی اس کو دولت کی خواہش ہوتی ہے ۔ کبھی اس کو اولاد کی حتی کہ اس کی ساری زندگی خواہشات کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے ۔ لیکن دنیاوی زندگی کی لذت کبھی ختم نہیں ہوتی ۔ اس کو سکون کبھی نہیں ملتا ۔ پتا ہے اس کو سکون کیوں نہیں ملتا؟ کیونکہ وہ دنیا کو پانے کے جنون میں اپنے رب کو بھول جاتا ہے ۔ وہ اپنے رب کو کچھ سمجھتا ہی نہیں ہے   ۔ اس کا دل رب کی یاد سے بلکل غافل ہو جاتا ہے ۔ وہ گناہوں کی دلدل میں اتنا دھنس جاتا ہے کہ آخر کار اسے دوائیوں سے بھی آرام نہیں ملتا ۔ وہ بے سکون ہو جاتا ہے ۔ لیکن پھر اتنے گناہوں کے بعد بھی اس کا رب اسے پکارتا رہتا ہے ۔ اور پھر اسے احساس ہوتا ہے کہ میں جتنا مرضی دولت شہرت اور دنیاوی مرتبے کے پیچھے بھاگ لوں آخر کار میری منزل صرف اللہ تعالی کی رضا ہے ۔ وہی میرا سکون ہے اور وہی میرا آرام ہے ۔ بے شک میں اپنے رب کی امانت ہوں ۔ میری منزل صرف یہی ہے کہ بے شک ہر شخص نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔ 

مجھے اس دنیا میں صرف اور صرف اللہ تعالی کی عبادت کے لئے بھیجا گیا ہے ۔ میرا مقصد صرف اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنا ہے ۔ اچھے کام کرناہے، انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے اپنی زندگی صرف کرنی ہے ۔ گناہوں سے پرہیز کرنا ہے ۔ اپنے آپ کو دنیا کی لذت سے بچانا ہے ۔ پیسہ اور دولت سب کچھ نہیں ہے ۔ سکون صرف اور صرف اللہ تعالی کی یاد میں ہے ۔ نماز اور قرآن کو سمجھنے میں ہے ۔ اپنی اصلاح کرنے میں ہے ۔ اللہ تعالی کے قریب ہونے میں ہے ۔ آخر میں یہی کہنا چاہتی ہوں کہ ہم جتنا مرضی دنیا کے پیچھے بھاگ لیں آخر کار ہم نے اللہ تعالی کے پاس جانا ہے ۔ 

" یقینا ہم اللہ تعالی کی ملکیت ہیں اور ہم نے اسی کے پاس واپس لوٹ کر جانا ہے " 

چلیے دوستو  !! ہم اپنے مقصد حیات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ رب ہے، یقینا وہ ہمیں معاف کر دے گا ۔ کیونکہ وہ رحمن و رحیم ہے ۔ اس کی رحمت ہمارے گناہوں سے بہت اونچی ہے ۔ وہ ہم سب سے بہت محبت کرتا ہے ۔ مگر افسوس! ہم اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ اور اس سے دور بھاگتے ہیں ۔ آئیے دوستو! اللہ تعالی کی پہچان کریں ۔ یہ نہ سوچیں کہ ہمارے گناہ کتنے بڑے ہیں ۔ بلکہ یہ سوچیں کہ ہمارا رب کتنا بڑا ہے ۔ وہ معاف کرنے پر قادر ہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب ۔ 

دعاؤں کی طلبگار ۔

تحریر ۔ صباء معظم خان ۔


54