گامے (ایک افسانہ )۔۔۔۔ کاشفیات 

تحریر :کاشف علی عبّاس 


غلام محمد عرف گاما کے دن جوں توں کر کے ہی گزر رہے تھے - غلام کی زندگی میں ناکامی کا جمود جاری و ساری تھا - رہی سہی کسر ظالم دنیا کی جلی کٹی باتیں پوری کر دیتی تھیں ، وہ تو حقارت سے اسے غلام بھی نہیں بلاتے تھے ، کوئی گاما کہتا تھا، کوئی ابے گامے اور کوئی چپڑاسی کی گردان کرتا ، چپڑاسی ادھر آؤ ، یہ کرو وہ کرو .. کہ کر بلاتا تھا -اوروں کی طرح اس نے بھی ایک اچھی پر تعیش زندگی کے سہانے سپنے ضرور دیکھے تھے ، مگر وہ ان سپنوں کی تعبیر کبھی نہ پا سکا - اس کی عمر اب چالیس کے لگ بھگ تھی - وہ ارسا محکمے میں عارضی نائب قاصد (چپڑاسی )بھرتی ہوا تھا اور اب بھی نائب قاصد ہی تھا، کبھی کبھی رشوت خور جونئیر کلرک ، حامد چیمہ ، اگر رخصت پر چلا جاتا تو غلام چند لمحے ڈیسک پر افسروں کی طرح بیٹھنے کی ٹھرک پوری کر لیتا تھا ، مگر وہ ایک دیانت دار, خودار انسان تھا ، اس نے کبھی روپے کی بھی رشوت نہ لی اور نہ ہی کسی سے مدد لی تھی - وہ ایک دھان پان سا مخنی قد و قامت کا معمولی دکھنے والا شخص تھا - ہمیشہ خاکی یا سفید کپڑوں میں ملبوس ہوتا، جو اکثر گندے رہتے تھے - کبھی سالن کے داغ، کبھی مٹی کی گرد، کبھی جھاڑ پونچھ کے دوران الا بلا چیزوں کے نشان مستقل حیثیت اختیار کر چکے تھے - جونئیر کلرک ، حامد چیمہ اکثر مزاق میں اسے کہتا ، ' گامے ...تو نے ضرور کوئی بڑا گناہ کیا ہے ، تبھی تیرے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہوتا ، اتنی تنخواہ میں تو ایک بندے کا گزارہ ممکن نہیں تو پورا (ٹبر )خاندان کیسے چلا لیتا ہے ؟ میری مان ، اوپر کی کمائی ہاتھ سے نہ جانے دیا کر ، میں سمجھاتا ہوں ...'

مگر غلام مسکرا کر اس کی بات سنتا رہتا ، جواب میں اکثر کچھ بھی نہ کہتا ...اس کی یہ مسکراہٹ اس کے تمام آفس والوں کو سخت نہ پسند تھی ...عجیب الوہی سی قناعت پسند ,پرسرار مسکراہٹ ہمیشہ اس کے لبوں پر موجود ہوتی تھی - آج بھی اس نے ہمیشہ کی طرح سعادت مندی سے، چہرے پر مسکراہٹ سجا کر کہا ' اچھا جی ، خدا آپ کو خوش رکھے ' اور آفس سے باہر چلا گیا - حامد چیمہ اور دوسرے لوگ زہریلے انداز میں ہنس پڑے اور اپنے کام میں مصروف ہو گیے -


آج جمعہ تھا- غلام لباس تبدیل کرنے گھر پہنچا تو اس کی بیوی غصے میں آگ بگولہ ہو رہی تھی - 

'گامے ...یہ پیسے کہاں سے لاؤں میں ؟ بول ...یہ بجلی کا بل ، یہ بچوں کے اسکول کی کتابیں، یہ فیس ، گھر میں کھانے کو ایک تنکا نہیں اور اب ان سب کو لے کر خودکشی کر لوں ...مر جایئں سب کے سب میری طرف سے ' یہ کہ کر اس نے ہاتھ میں پکڑا جھاڑو زور سے زمین پر دے مارا 

...غلام کی مسکراہٹ لمحے بھر کو منجمد ہوئی ، مگر پھر رواں ہو گیئی ، وہ آرام سے ، دھیرج سے ، بیوی کے کندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھتے ہوے بولا ' بھلی لوک ! الله پر توکل رکھ ...سب بہتر ہو جاۓ گا! الله تجھے خوش رکھے ' اس نے ہمیشہ کی طرح آج بھی اپنا جواب ٹیپ ریکاڈر کی طرح پٹ پٹ سنا دیا - مگر اس کی بیوی آج زیادہ ہی گرم مزاج بنی تھی ، اس نے اپنے سر پر دو ہتھٹر مارے، بال بکھیر دیے اور بین کرنے والے انداز میں چیخی '' کیڑے پڑیں تجھے گامے ! محلے والوں سے مانگ تانگ کر، ان کے برتن مانج مانج کر دو وقت کی روٹی پوری ہوتی ہے ، جوان بیٹی گھر پر ہے، اس کی شادی کو ایک ٹکا نہیں، بچے آوارہ ہو چکے ہیں ..تیری تنخوا ہ سے ہفتہ بھی نہیں گزرتا ..اور تو کہتا ہے الله مجھے خوش رکھے ؟ کیسی خوشی ؟ ' 

غلام نے آگے بڑھ کر اسے روکنا چاہا تو وہ جاہل عورتوں کی طرح اونچی اونچی بین کرنے لگی...

' ہائے ..مرے نصیب پھوٹ گیے جو اماں باوا نے یہاں نکاح کروا دیا ، اس ٹٹ پونجیے چپڑاسی کے ساتھ ..ہاۓ میں تو برباد ہو گیئ ..' وہ مسلسل اونچی آواز میں روتے ہوے کہ رہی تھی - 

' آرام سے ...پورا محلہ سن رہا ہے ' گامے نے نرم لہجے میں کہا مگر اس کی بیوی تو چنگیز خان بنی ہوئی تھی 

' نہ ..میں کہتی ہوں ، اگر تیرے پاس ایک دھیلا نہیں، تو اپنے بہن بھائیوں سے مانگ لے ...وہ سب خوشحال ہیں پیسے والے ہیں ، تیرے رشتہ دار ہیں ..اور یہ ساتھ والی نصیبو کا میاں بھی چپڑاسی ہے مگر اس کے ہاں تو دھن ہی دھن ہے ...ابھی بیٹی کی شادی اتنے ٹھاٹھ سے کی اور ایک تو ہے اپنی ایمانداری کو قبر میں لے جایے گا کیا؟ ہم بھوکوں مر رہیں ہیں تجھے پروا ہی نہیں ' غلام نے پہلی بار اسے سختی سے ٹوکا 


' میں رشوت لوں؟ بول ...دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاؤں، بھیک مانگوں جب مرے ہاتھ پیر سلامت ہیں ؟ بول ...قبر کی کیا بات کرتی ہو ؟ بولو ، وقتی معاملے حل کرنے کے لیے اپنی قبر کو آگ سے بھر لوں ؟ ' غلام کچھ تیزی میں یہ کہ کر پھر ٹھنڈا سا ہوا اور شستہ لہجے میں بولا ''...تو صحیح ہے ، زندگی مشکل ہے آج ... مگر صبر کر ، قناعت سے کام لے بھلی لوک ! الله سب دیکھتا ہے ، جانتا ہے ...اسے ہماری مصیبتوں کا پتا ہے ...ایسے کفر نہ بولا کر ، الله تجھے خوش رکھے ' مگر اس کی بیوی پیر پٹختی اندر کمرے میں چلی گیئی اور غلام نے صاف لباس کے لیے لاکھ آوازیں دیں مگر اس نے کمرہ کا دروازہ بند کر لیا تھا، اور غلام کی بیٹی محلے کے بچوں کو پڑھانے گیئی ہوئی تھی -غلام مجبوراً انھیں کپڑوں میں جمعہ پڑھنے مسجد چلا آیا ، ابھی امام مسجد خطبہ دے رہے تھے اور وہ دیگر نمازیوں کے ساتھ محویت کے عالم میں ان کا خطبہ ایسے سن رہا تھا جیسے ذہن نشین کر رہا ہو-


تبھی کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ، یہ اس کا چھوٹا بھائی کلام محمد تھا - 

' کیسے حالات چل رہے ہیں گامے ، سنا ہے اچھے نہیں ؟ کلام محمد نے خیر سگالی کے بعد ہی توپ کے گولے کی طرح سوال داغ دیا - مگر غلام نے نہ تو اس کے ' گامے ' کہنے کا برا منایا ، نہ اس سوال کا ...وہ جانتا تھا اس کی بیوی بھی کلام محمّد کے گھر پیسوں کے تقاضے کو گیئی تھی ، مگر غلام کو جب پتا چلا تو سب پیسے واپس کر دیے جس پر کلام محمد مزید ناراض ہوا تھا ...لہذا ابھی بھی اس نے چہرے پر مخصوص مسکراہٹ سجا کر کہا ' الله کا شکر ہے ، سب ٹھیک ہے '

کلام نے معنی خیز انداز میں دیکھتے ہوے کہا ' مجھے پتا ہے کتنا ٹھیک ہے سب! تم کیوں اپنے خاندان کو اپنی ناکامیوں کی سزا ...' 

'بس کلام ...بس...' غلام نے اس کی بات کاٹ دی اور آرام سے بولا ' مرے لیے تمہاری باتوں سے یہ جمعہ کا خطبہ زیادہ اہم ہے ، اور مجھے الله سے امید کامل ہے ، میں اسی سے مانگتا ہوں ، اسی پر یقین ہے اور وہی مجھے اس کا اجر ، مرے صبر کا اجر دے گایہ تو دنیاوی آزمایش ہے ...الله تمھیں خوش رکھے ' 

یہ کہ کر اس نے چہرہ موڑ لیا ، جب کہ کلام محمّد غصے میں بڑبڑایا ' عجیب احمق اور گھامڑ شخص ہے ، چلو بھگتو پھر ' یہ اتنا آہستہ نہیں کہا گیا تھا کہ غلام سن نہ پاتا ، مگر اس نے سنی ان سنی کر دی ...جمعہ کی ادائیگی کے بعد وہ پیدل گھر کی جانب چل پڑا ، آج دعا میں اس نے رقت آمیز لہجے میں الله سے اپنے مسائل کا ذکر کیا تھا، شکوہ نہیں پھر بھی شکر کیا تھا اور اسے ٹنوں سکون مل گیا ...وہ بیحد شاداں و فرحاں ، پیدل اس شدید گرمی میں گھر جا رہا تھا، وہ کرایا بچانا چاہتا تھا ، اس کے کپڑے پسینے سے شرابور تھے آتے بھی وہ پیدل آیا تھا ، تبھی اس کے قریب ایک کار رکی ، حامد چیمہ کی کار ...اس نے لفٹ کی پیشکش کی مگر یہ کہا کہ اگلے چوک پر اتار دے گا ...اس کی زہریلی ہنسی دیکھ کر غلام محمد نے پھر خود پر مخصوص مسکراہٹ سجائی اور شکریہ کہ کر آگے چل پڑا ...


گھر پہنچا تو عجیب سا کہرام مچا تھا - اس کی بیوی نے غربت سے تنگ آ کرزہر کھا لیا تھا، اور دو چھوٹے بچوں کو بھی کھلا دیا ...محلے والے سب کو ہاسپٹل لے گئے تھے- بیوی اور ایک بچہ وہیں دم توڑ چکے تھے ...ایک بچہ ابھی زندہ تھا مگر اس کی حالت تشویشناک تھی ...ہاسپٹل کے برآمدے میں اس کی بیٹی ایک بینچ پر بیٹھی تھی، اور عجیب نفرت کی نگاہوں سے غلام محمد کو تکے جا رہی تھی ، اس کی نگاہیں چیخ چیخ کر کہ رہی تھیں کہ جیسے تم ہی ان کے قاتل ہو بابا ! ...غلام ہمت کر کے ، ڈبڈبائی آنکھوں سے آگے بڑھا تو وہ جھٹکے سے اٹھی اور دوسری طرف بھاگ گیئی ، وہاں موجود اس کے رشتہ دار اس کو ملامت و حقارت سے چپ چاپ دیکھ رہے تھے - کسی نے اسے دلاسہ تک نہ دیا ...سب کی نفرت ان کے وجود سے باہر آ رہی تھی - اس کے ساس سسر تو اسے مارنے کو آگے آئے مگر لوگوں نے بیچ بچاؤ کرا دیا ...غلام کی دنیا اجڑ چکی تھی ، اس پر ہزیانی کیفیت طاری ہو چکی تھی ...لوگوں کی الزام تراشی والی نگاہیں اور ان کا نفرت انگیز سلوک اس کے جسم میں گرم سلاخوں کے داغنے کی طرح اذیت دے رہا تھا - تبھی اس کی مسکراہٹ ، مخصوص مسکراہٹ لمحہ بھر کو غایب ہو گیئی ، مگر پھر لوٹ آئی ...اس میں قناعت کے ساتھ درد اور اذیت بھی تھی ، اس کے ہونٹ بھنچے ہوے تھے ، تبھی اس نے اچانک کہا ،رک رک کر، ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہا 

' الله صبر کرنے ...والوں کے..... ساتھ ہے ، الله ...آپ سب ....کو ....خوش رکھے !اور ہاسپٹل سے باہر کھلی فضا میں آ گیا ... وہ سڑک کی دوسری جانب ایک چھلی کا ٹھیلا دیکھ کر چونک گیا، وہ جانتا تھا اس کی بیٹی کو چھلی پسند ہے ، اس نے سوچا شاید وہ اس طرح مان جایے 

اور وہ دو بول ہمدردی کے کہ ڈالے ، اپنا غم ہی ہلکا کر لے ، کیوں کہ اب تک کسی نے اس سے کوئی بات ہی نہ کی تھی ...صرف احساس دلایا تھا کہ یہ سب تمہاری وجہہ سے ہوا ہے ...وہ یہ سوچ کر تیزی سے سڑک پار جانے لگا ، اور آنسوؤں سے اس کی آنکھیں بھر چکی تھیں، اس کے قدم لڑکھڑا رہے تھے ، دھندلی آنکھوں سے ٹھیلا نظر آ رہا تھا ..اس نے سڑک پر رک کر جیب میں ہاتھ ڈال کر پیسے نکالنے چاہے کہ ایک زوردار ٹکر سے وہ ہوا میں اچھلتا گیا ...ٹکر اتنی زبردست تھی کہ سو کا نوٹ جو اس کے ہاتھ میں تھا ہاتھ سمیت غایب تھا ، اس کے پڑخچے اڑ چکے تھے ...لوگ افرتفری میں اس کے باقی ماندہ جسم کے پاس پہنچے تو اس کے منھ سے خون به رہا تھا - وہ کچھ کہنے کی کوشش کر رہا تھا ، بمشکل یہ آواز سنی جا سکتی تھی ' ' الله صبر کرنے ...والوں کے..... ساتھ ہے ، الله ...آپ سب ....کو ....خوش رکھے ' اورپھر وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا غلام محمد عرف گامے مر گیا !


اگلے دن تین جنازے ایک ہی گھر سے اٹھے - اور لوگ چہ مگوئیاں کر رہے تھے - غلام محمّد کی موت کے بعد بھی وہ اس کو ہی اس سانحہ کا ذمےدار ٹھہرا رہے تھے ...اس کے اپنے آفس والے ، رشتے دار ، دوسرے لوگ سب یہی سمجھ رہے تھے کہ اس کا مر جانا ہی بہتر تھا - غلام محمّد کے بیٹے اور بیوی کو دفنانے کے بعد گورکن نے اس کی قبر میں تختے رکھنے شروع کیے - گورکن بھی اس کا محلے دار تھا، اور ایک اچھا آدمی تھا ، جیسے ہی اس نے قبر میں اتر کر میت نیچے اتاری ایک تیز خوشبو محسوس ہوئی ، اس قدر تیز خوشبو کہ آج تک اس نے کسی جگہ نہ سونگھی ، اس کے نتھنے مدہوش ہو چکے تھے اور باقی لوگوں کو بھی شاید تیز خوشبو آ چکی تھی ، مگر وہ اسے قبرستان میں اگر بتیوں یا ایسی ہی کوئی خوشبو سمجھ رہے تھے ، وہ غلام محمد سے اتنی نفرت کرتے تھے کہ یہ خوشبو اس طرف منسوب ہی نہ کر سکتے تھے - مگر گورکن جانتا تھا ، یہ غلام محمد کی میت کی خوشبو ہے، وہ اس سے محض ایک انچ قریب تھا ، اس نے ذرا جھک کر میت کے اوپر سے کپڑا ہٹایا، تو وہی قانع مسکان تھی، گورکن نے اس کی پیشانی کو بوسہ دیا ، کپڑا ڈھک دیا اور تختے او پر رکھ کر مٹی پھینکنی شروع کر دی -----جب وہ واپس آنے لگا تو حامد چیمہ نے اسے مخاطب ہوتے ہوے کہا ' بڑا ہی خبیث آدمی تھا '، پورا خاندان مار دیا ' گورکن نے جواب میں سر ہلایا ، قبر کو ایک نظر دیکھا ، اور اس کے چہرے پر بھی وہی مسکراہٹ سی تھی، وہی پرسرار مسکراہٹ ثبت تھی !


0
53