Circle Image

عقیل محی الدین

@akeelwrites

یہ راتوں کے تحفوں میں خابوں کی کھڑکی
سوالوں کی کھڑکی جوابوں کی کھڑکی
جو کانٹے بھی لت پت ہیں اجڑے چمن میں
کوئی ڈھونڈتا ہے گلابوں کی کھڑکی
کہ بارش کی بوندے ہے آنکھوں میں ہر دم
تھکاوٹ کی لہریں حبابوں کی کھڑکی

0
1
98
مرا یہ سایا کہاں گیا کر چراغ روشن
ہو گھر کے باہر ہو گھر کے اندر چراغ روشن
میں تب کے مانوں ترے وظیفے اے میرے مرشد
کہ جب تو کر لے تہہِ سمندر چراغ روشن
بڑا عجب ہے کہ روز کمرے میں اب نمی ہے
یہ کون کرتا ہے مثلِ پیکر چراغ روشن

0
1
234
گھروں میں سب کے یاں اب تو سنوارے جائیں گے پتھر
نیا مجنوں بنا ہوں میں سو مارے جائیں گے پتھر
خدا کے نام پر کتنے غریبوں کی امانت سے
تراشے جائیں گے پتھر نکھارے جائیں گے پتھر
بہا کے ہم کو لے جائے اگر دریا روانی میں
روانی دیکھ کر میری کنارے جائیں گے پتھر

0
4
121
فلک سے گم ہے تارے، چاند بھی حیران ہے مرشد
ٹپکتی روشنی سے لگتا نم مژگان ہے مرشد
مرے الفاظ تو دیکھیں، مرے ہونٹوں کا ڈر کیا ہے؟
سنبھالیں میرے جملوں کو، بڑے نادان ہے مرشد
نچوڑے خواب ہیں سارے، جو میرے، تیرے، سب کے تھے
پسینوں سے بجھانی پیاس اب آسان ہے مرشد

0
64
خواب میں در خواب تم کو دیکھا میں نے
ایک دم نایاب تم کو دیکھا میں نے
میں نے دیکھا دریا میں پانی رکا ہے
آنکھوں سے پر آب تم کو دیکھا میں نے
اب نہیں ہے خامشی اب لب کھلے ہیں
لفظوں کا سیلاب تم کو دیکھا میں نے

0
48
میں کیسی راہ پے اب ہوں، کہاں پر ہے خضر میرا؟
ہے کھویا میں نے تجھ سے اب یہ ملنے کا سفر میرا
ورق میری کہانی کا بکھر کے آ گیا ایسے
شجر کی شاخ سے کٹ کے ہو آیا یہ شجر میرا

63
اتر آئی مری دیوار سے تصویریں سب کی سب
لپٹ کے رو رہی ہے یاد اس کی اب ہے سینے میں
میں رہتا دور ہی ہوں اس لیے اس کے تعلق سے
نظر آتی ہے مجھ کو عاشقی بھر بھر کے مینے میں
ہے کوئی کھیل منزل کا اچھالا اب گیا پانسا
لگے ہیں ہر قدم پر سینکڑوں ہی سانپ زینے میں

57
ہے کس کی آنکھ نم کیا آرزوئے غم، ستم ستم
پکارتا ملنگ ہے ستم ستم، ستم ستم
مجھے لگا میں یاد ہوں، مرے قریبِ یار کو
چلا گیا وہ توڑ کے مرا بھرم، ستم ستم
میں خود میں کائنات ہوں، جہاں کی بادشاہی رکھ
مگر کہ ہے جو مجھ میں اک مرا حرم، ستم ستم

0
72
چلو ہم عہد کرتے ہیں تجھے حیراں نہ کر دینگے
تری باندھی ہوئی زنجیر کو ویراں نہ کر دینگے
مرے مرشد تو سنتا جا مرا ہر غم پریشانی
کہ عرصے بعد کی محفل ہے یوں آساں نہ کر دینگے
یہ پیلے زرد پتے کی ہے صورت آ گئی مجھ میں
مگر ایسے بھی گر کے پیڑھ کا نقصاں نہ کر دینگے

0
70
راتیں مشکل کٹ رہی ہیں، دن گزارا جا رہا ہے
رسمیں ایسی بن رہی ہیں، سب کو مارا جا رہا ہے
جیسے تم کو مرضی بولو، جیسے میں چاہوں میں بولوں
دیکھ لو تم کس طرف اسکا اشارا جا رہا ہے
موجیں وحشی سمندر کی قہر اٹھا کے چلتی ہیں تو
بچ بچاتے ایسے میں بھی اک کنارا جا رہا ہے

1
78