| منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی |
| قسمت کھلی ترے قد و رخ سے ظہور کی |
| اک خوں چکاں کفن میں کروڑوں بناؤ ہیں |
| پڑتی ہے آنکھ تیرے شہیدوں پہ حور کی |
| واعظ! نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو |
| کیا بات ہے تمہاری شرابِ طہور کی! |
| لڑتا ہے مجھ سے حشر میں قاتل، کہ کیوں اٹھا؟ |
| گویا ابھی سنی نہیں آواز صور کی |
| آمد بہار کی ہے جو بلبل ہے نغمہ سنج |
| اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی |
| گو واں نہیں، پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں |
| کعبے سے اِن بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی |
| کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب |
| آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی |
| گرمی سہی کلام میں، لیکن نہ اس قدر |
| کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی |
| غالبؔ گر اس سفر میں مجھے ساتھ لے چلیں |
| حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی |
بحر
|
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات