| اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے |
| بیٹھا رہا اگرچہ اشارے ہوا کیے |
| دل ہی تو ہے سیاستِ درباں سے ڈر گیا |
| میں اور جاؤں در سے ترے بِن صدا کیے |
| رکھتا پھروں ہوں خرقہ و سجّادہ رہنِ مے |
| مدّت ہوئی ہے دعوتِ آب و ہوا کیے |
| بے صرفہ ہی گزرتی ہے، ہو گرچہ عمرِ خضر |
| حضرت بھی کل کہیں گے کہ ہم کیا کیا کیے |
| مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے* لئیم |
| تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے |
| کس روز تہمتیں نہ تراشا کیے عدو ؟ |
| کس دن ہمارے سر پہ نہ آرے چلا کیے ؟ |
| صحبت میں غیر کی نہ پڑی ہو کہیں یہ خو |
| دینے لگا ہے بوسہ بغیر التجا کیے |
| ضد کی ہے اور بات مگر خو بری نہیں |
| بھولے سے اس نے سینکڑوں وعدے وفا کیے |
| غالبؔ تمہیں کہو کہ ملے گا جواب کیا |
| مانا کہ تم کہا کیے اور وہ سنا کیے |
بحر
|
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات