| شیریں زبانیوں کے دریچے اُجڑ گئے |
| وہ لُطفِ حرف و لذّتِ حسنِ بیاں کہاں |
| پیچھے گُزر گئی ہے سِتاروں کی روشنی |
| یارو ، بسا رہے ہو نئی بستیاں کہاں |
| اے منزلِ ابد کے چراغو ، جواب دو |
| آگے اب اور ہو گا مرا کارواں کہاں |
| ہر شکل پر فرشتہ رُخی کا گمان تھا |
| اُس عالمِ جنوں کی نظر بندیاں کہاں |
| بن جائے گی علامتِ نُصرت بدن کی قید |
| زنداں سے چُھپ سکے گی مری داستاں کہاں |
بحر
|
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات