| گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر |
| جانے گا اب بھی تو نہ مرا گھر کہے بغیر؟ |
| کہتے ہیں جب رہی نہ مجھے طاقتِ سخن |
| 'جانوں کسی کے دل کی میں کیونکر کہے بغیر' |
| کام اس سے آ پڑا ہے کہ جس کا جہان میں |
| لیوے نہ کوئی نام ستم گر کہے بغیر |
| جی میں ہی کچھ نہیں ہے ہمارے وگرنہ ہم |
| سر جائے یا رہے، نہ رہیں پر کہے بغیر |
| چھوڑوں گا میں نہ اس بتِ کافر کا پوجنا |
| چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافَر کہے بغیر |
| مقصد ہے ناز و غمزہ ولے گفتگو میں کام |
| چلتا نہیں ہے دُشنہ و خنجر کہے بغیر |
| ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو |
| بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر |
| بہرا ہوں میں۔ تو چاہیے، دونا ہوں التفات |
| سنتا نہیں ہوں بات مکرّر کہے بغیر |
| غالبؔ نہ کر حضور میں تو بار بار عرض |
| ظاہر ہے تیرا حال سب اُن پر کہے بغیر |
بحر
|
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات