| بھولے سے کاش وہ ادھر آئیں تو شام ہو |
| کیا لطف ہو جو ابلقِ دوراں بھی رام ہو |
| تا گردشِ فلک سے یوں ہی صبح و شام ہو |
| ساقی کی چشمِ مست ہو اور دورِ جام ہو |
| بے تاب ہوں بلا سے، کن* آنکھوں سے دیکھ لیں |
| اے خوش نصیب! کاش قضا کا پیام ہو |
| کیا شرم ہے، حریم ہے، محرم ہے راز دار |
| میں سر بکف ہوں، تیغِ ادا بے نیام ہو |
| میں چھیڑنے کو کاش اسے گھور لوں کہیں |
| پھر شوخ دیدہ بر سرِ صد انتقام ہو |
| وہ دن کہاں کہ حرفِ تمناّ ہو لب شناس |
| ناکام، بد نصیب، کبھی شاد کام ہو |
| گھس پل کے چشمِ شوق قدم بوس ہی سہی |
| وہ بزمِ غیر ہی میں ہوں اژدہام** میں |
| اتنی پیوں کہ حشر میں سرشار ہی اٹھوں |
| مجھ پر جو چشمِ ساقئ بیت الحرام ہو |
| پیرانہ سال غالبؔ میکش کرے گا کیا |
| بھوپال میں مزید جو دو دن قیام ہو |
بحر
|
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات