| زمانے میں کوئی برائی نہیں ہے |
| فقط اک تسلسل کا جھولا رواں ہے |
| یہ میں کہہ رہا ہوں |
| میں کوئی برائی نہیں ہوں زمانہ نہیں ہوں |
| تسلسل کا جھولا نہیں ہوں |
| مجھے کیا خبر کیا برائی میں ہے کیا زمانے میں ہے |
| اور پھر میں تو یہ بھی کہوں گا |
| کہ جو شے اکیلی رہے اس کی منزل فنا ہی فنا ہے |
| برائی، بھلائی، زمانہ تسلسل یہ باتیں بقا کے گھرانے سے آئی ہوئی ہیں |
| مجھے تو کسی کے گھرانے سے کوئی تعلق نہیں ہے |
| میں ہوں ایک، اور میں اکیلا ہوں، اک اجنبی ہوں |
| یہ بستی، یہ جنگل، یہ بہتے ہوئے راستے اور دریا |
| یہ پربت، اچانک نگاہوں میں آتی ہوئی کوئی اونچی عمارت |
| یہ اجڑے ہوئے مقبرے اور مرگِ مسلسل کی صورت مجاور |
| یہ ہنستے ہوئے ننھے بچے یہ گاڑی سے ٹکرا کے مرتا ہو ایک اندھا مسافر |
| ہوائیں، نباتات اور آسماں پر اِدھر سے ادھر آتے جاتے ہوئے چند بادل |
| یہ کیا ہیں؟ |
| یہی تو زمانہ ہے، یہ اک تسلسل کا جھولا رواں ہے |
| یہ میں کہہ رہا ہوں |
| یہ بستی، یہ جنگل، یہ رستے، یہ دریا، یہ پربت، عمارت، مجاور، مسافر، ہوائیں، نباتات اور آسماں پر ادھر سے ادھر آتے جاتے ہوئے چند بادل |
| یہ سب کچھ، یہ ہر شے مرے ہی گھرانے سے آئی ہوئی ہے |
| زمانہ ہوں میں، میرے ہی دم سے ان مٹ تسلسل کا جھولا رواں ہے |
| مگر مجھ میں کوئی برائی نہیں ہے |
| یہ کیسے کہوں میں |
| کہ مجھ میں فنا اور بقا دونوں آ کر ملے ہیں |
بحر
|
متقارب مثمن سالم
فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات