| کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے |
| جس میں کہ ایک بیضۂ مور آسمان ہے |
| ہے کائنات کو حَرَکت تیرے ذوق سے |
| پرتو سے آفتاب کے ذرّے میں جان ہے |
| حالانکہ ہے یہ سیلیِ خارا سے لالہ رنگ |
| غافل کو میرے شیشے پہ مے کا گمان ہے |
| کی اس نے گرم سینۂ اہلِ ہوس میں جا |
| آوے نہ کیوں پسند کہ ٹھنڈا مکان ہے |
| کیا خوب! تم نے غیر کو بوسہ نہیں دیا |
| بس چپ رہو ہمارے بھی منہ میں زبان ہے |
| بیٹھا ہے جو کہ سایۂ دیوارِ یار میں |
| فرماں روائے کشورِ ہندوستان ہے |
| ہستی کا اعتبار بھی غم نے مٹا دیا |
| کس سے کہوں کہ داغ جگر کا نشان ہے |
| ہے بارے اعتمادِ وفاداری اس قدر |
| غالبؔ ہم اس میں خوش ہیں کہ نا مہربان ہے |
بحر
|
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات