جہاں زاد، نیچے گلی میں ترے در کے آگے |
یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ہوں |
تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطّار یوسف |
کی دکّان پر میں نے دیکھا |
تو تیری نگاہوں میں وہ تابناکی |
تھی میں جس کی حسرت میں نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں |
جہاں زاد، نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں! |
یہ وہ دور تھا جس میں میں نے |
کبھی اپنے رنجور کوزوں کی جانب |
پلٹ کر نہ دیکھا |
وہ کوزے مرے دست چابک کے پتلے |
گل و رنگ و روغن کی مخلوق بے جاں |
وہ سر گوشیوں میں یہ کہتے |
حسن کوزہ گر اب کہاں ہے |
وہ ہم سے خود اپنے عمل سے |
خداوند بن کر خداؤں کے مانند ہے روئے گرداں |
جہاں زاد نو سال کا دور یوں مجھ پہ گزرا |
کہ جیسے کسی شہر مدفون پر وقت گزرے |
تغاروں میں مٹی |
کبھی جس کی خوشبو سے وارفتہ ہوتا تھا میں |
سنگ بستہ پڑی تھی |
صراحی و مینا و جام و سبو اور فانوس و گلداں |
مری ہیچ مایہ معیشت کے، اظہار فن کے سہارے |
شکستہ پڑے تھے |
میں خود، میں حسن کوزہ گر پا بہ گل خاک بر سر برہنہ |
سر چاک ژولیدہ مو، سر بہ زانو |
کسی غمزدہ دیوتا کی طرح واہمہ کےگل و لا |
سے خوابوں کے سیّال کوزے بناتا رہا تھا |
جہاں زاد، نو سال پہلے |
تو ناداں تھی لیکن تجھے یہ خبر تھی |
کہ میں نے، حسن کوزہ گر نے |
تری قاف کی سی افق تاب آنکھوں |
میں دیکھی ہے وہ تابناکی |
کہ جس سے مرے جسم و جاں، ابرو مہتاب کا |
رہگزر بن گئے تھے |
جہاں زاد بغداد کی خواب گوں رات |
وہ رود دجلہ کا ساحل |
وہ کشتی وہ ملاح کی بند آنکھیں |
کسی خستہ جاں رنج بر کوزہ گر کے لیے |
ایک ہی رات وہ کہربا تھی |
کہ جس سے ابھی تک ہے پیوست اسکا وجود |
اس کی جاں اس کا پیکر |
مگر ایک ہی رات کا ذوق دریا کی وہ لہر نکلا |
حسن کوزہ گر جس میں ڈوبا تو ابھرا نہیں ہے! |
جہاں زاد اس دور میں روز، ہر روز |
وہ سوختہ بخت آ کر |
مجھے دیکھتی چاک پر پا بہ گل سر بزانو |
تو شانوں سے مجھ کو ہلاتی |
وہی چاک جو سالہا سال جینے کا تنہا سہارا رہا تھا |
وہ شانوں سے مجھ کو ہلاتی |
حسن کوزہ گر ہوش میں آ |
حسن اپنے ویران گھر پر نظر کر |
یہ بچّوں کے تنّور کیونکر بھریں گے |
حسن، اے محبّت کے مارے |
محبّت امیروں کی بازی، |
حسن، اپنے دیوار و در پر نظر کر |
مرے کان میں یہ نوائے حزیں یوں تھی جیسے |
کسی ڈوبتے شخص کو زیرگرداب کوئی پکارے! |
وہ اشکوں کے انبار پھولوں کے انبار تھے ہاں |
مگر میں حسن کوزہ گر شہر اوہام کے ان |
خرابوں کا مجذوب تھا جن |
میں کوئی صدا کوئی جنبش |
کسی مرغ پرّاں کا سایہ |
کسی زندگی کا نشاں تک نہیں تھا! |
جہاں زاد، میں آج تیری گلی میں |
یہاں رات کی سرد گوں تیرگی میں |
ترے در کے آگے کھڑا ہوں |
سر و مو پریشاں |
دریچے سے وہ قاف کی سی طلسمی نگاہیں |
مجھے آج پھر جھانکتی ہیں |
زمانہ، جہاں زاد وہ چاک ہےجس پہ مینا و جام و سبو |
اور فانوس و گلداں |
کے مانند بنتے بگڑتے ہیں انساں |
میں انساں ہوں لیکن |
یہ نو سال جو غم کے قالب میں گزرے! |
حسن کوزہ گر آج اک تودہ خاک ہےجس |
میں نم کا اثر تک نہیں ہے |
جہاں زاد بازار میں صبح عطّار یوسف |
کی دکّان پر تیری آنکھیں |
پھر اک بار کچھ کہہ گئی ہیں |
ان آنکھوں کی تابندہ شوخی |
سے اٹھی ہے پھر تودہ خاک میں نم کی ہلکی سی لرزش |
یہی شاید اس خاک کو گل بنا دے! |
تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن |
تو چاہے تو بن جاؤں میں پھر |
وہی کوزہ گر جس کے کوزے |
تھے ہر کاخ و کو اور ہرشہر و قریہ کی نازش |
تھے جن سے امیر و گدا کے مساکن درخشاں |
تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن |
تو چاہے تو میں پھر پلٹ جاؤں ان اپنے مہجور کوزوں کی جانب |
گل و لا کے سوکھے تغاروں کی جانب |
معیشت کے اظہار فن کے سہاروں کی جانب |
کہ میں اس گل و لا سے ، اس رنگ و روغن |
سے پھر وہ شرارے نکالوں کہ جن سے |
دلوں کے خرابے ہوں روشن! |
بحر
متقارب مسدس سالم
فَعُولن فَعُولن فَعُولن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات