| سر گشتگی میں عالمِ ہستی سے یاس ہے |
| تسکیں کو دے نوید* کہ مرنے کی آس ہے |
| لیتا نہیں مرے دلِ آوارہ کی خبر |
| اب تک وہ جانتا ہے کہ میرے ہی پاس ہے |
| کیجے بیاں سرورِ تبِ غم کہاں تلک |
| ہر مو مرے بدن پہ زبانِ سپاس ہے |
| ہے وہ غرورِ حسن سے بیگانۂ وفا |
| ہرچند اس کے پاس دلِ حق شناس ہے |
| پی جس قدر ملے شبِ مہتاب میں شراب |
| اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے |
| ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسدؔ |
| مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے |
بحر
|
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات