| کیوں جل گیا نہ، تابِ رخِ یار دیکھ کر |
| جلتا ہوں اپنی طاقتِ دیدار دیکھ کر |
| آتش پرست کہتے ہیں اہلِ جہاں مجھے |
| سرگرمِ نالہ ہائے شرربار دیکھ کر |
| کیا آبروئے عشق، جہاں عام ہو جفا |
| رکتا ہوں تم کو بے سبب آزار دیکھ کر |
| آتا ہے میرے قتل کو پَر جوشِ رشک سے |
| مرتا ہوں اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر |
| ثابت ہوا ہے گردنِ مینا پہ خونِ خلق |
| لرزے ہے موجِ مے تری رفتار دیکھ کر |
| وا حسرتا کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ |
| ہم کو حریصِ لذّتِ آزار دیکھ کر |
| بِک جاتے ہیں ہم آپ، متاعِ سخن کے ساتھ |
| لیکن عیارِ طبعِ خریدار دیکھ کر |
| زُنّار باندھ، سبحۂ صد دانہ توڑ ڈال |
| رہرو چلے ہے راہ کو ہموار دیکھ کر |
| ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں |
| جی خوش ہوا ہے راہ کو پُر خار دیکھ کر |
| کیا بد گماں ہے مجھ سے، کہ آئینے میں مرے |
| طوطی کا عکس سمجھے ہے زنگار دیکھ کر |
| گرنی تھی ہم پہ برقِ تجلّی، نہ طور پر |
| دیتے ہیں بادہ' ظرفِ قدح خوار' دیکھ کر |
| سر پھوڑنا وہ! 'غالبِؔ شوریدہ حال' کا |
| یاد آگیا مجھے تری دیوار دیکھ کر |
بحر
|
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات