نہ ملاقات نہ اب شوقِ ملاقات رہا
نہ محبت نہ وہ اب شعلہِ جذبات رہا
چلو میں ترک کروں خود کو میں آزاد کروں
مرے آنگن میں ترا دکھ بھی جو دن رات رہا
مجھ سے ملنے کو تڑپ جو تُو دکھاتا تھا مجھے
نہ وہ شدت نہ خیالوں میں مرے ساتھ رہا
میں بھی مغلوب ہوا ہونگا اناؤں کے سبب
رابطہ توڑنے میں تیرا بھی کچھ ہاتھ رہا
اب تو اچھی نہ لگے کوئی بھی موسم کی ادا
نہ وہ بارش نہ ہی وہ موسمِ برسات رہا
سوچتا ہوں کہ کہاں مجھ سے رہی کوئی کمی
کیوں کسی اور پہ یہ دستِ عنایات رہا
تیری تصویر مرے دل میں چھپی ہے جاناں
عشق تیرا ہی مرا عکسِ خیالات رہا
اے ہمایوں تُو بھی اب رختِ سفر باندھ کہ تُو
جو رہا شہر میں تُو باعثِ حالات رہا
ہمایوں

20