زمانے میں کوئی برائی نہیں ہے
فقط اک تسلسل کا جھولا رواں ہے
یہ میں کہہ رہا ہوں
میں کوئی برائی نہیں ہوں زمانہ نہیں ہوں
تسلسل کا جھولا نہیں ہوں
مجھے کیا خبر کیا برائی میں ہے کیا زمانے میں ہے
اور پھر میں تو یہ بھی کہوں گا
کہ جو شے اکیلی رہے اس کی منزل فنا ہی فنا ہے
برائی، بھلائی، زمانہ تسلسل یہ باتیں بقا کے گھرانے سے آئی ہوئی ہیں
مجھے تو کسی کے گھرانے سے کوئی تعلق نہیں ہے
میں ہوں ایک، اور میں اکیلا ہوں، اک اجنبی ہوں
یہ بستی، یہ جنگل، یہ بہتے ہوئے راستے اور دریا
یہ پربت، اچانک نگاہوں میں آتی ہوئی کوئی اونچی عمارت
یہ اجڑے ہوئے مقبرے اور مرگِ مسلسل کی صورت مجاور
یہ ہنستے ہوئے ننھے بچے یہ گاڑی سے ٹکرا کے مرتا ہو ایک اندھا مسافر
ہوائیں، نباتات اور آسماں پر اِدھر سے ادھر آتے جاتے ہوئے چند بادل
یہ کیا ہیں؟
یہی تو زمانہ ہے، یہ اک تسلسل کا جھولا رواں ہے
یہ میں کہہ رہا ہوں
یہ بستی، یہ جنگل، یہ رستے، یہ دریا، یہ پربت، عمارت، مجاور، مسافر، ہوائیں، نباتات اور آسماں پر ادھر سے ادھر آتے جاتے ہوئے چند بادل
یہ سب کچھ، یہ ہر شے مرے ہی گھرانے سے آئی ہوئی ہے
زمانہ ہوں میں، میرے ہی دم سے ان مٹ تسلسل کا جھولا رواں ہے
مگر مجھ میں کوئی برائی نہیں ہے
یہ کیسے کہوں میں
کہ مجھ میں فنا اور بقا دونوں آ کر ملے ہیں
بحر
متقارب مثمن سالم
فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن

1990

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں