بیٹھے ہوئے ہیں کیسے تصور میں شام سے
ٹکرا رہے ہیں لب ترے ہونٹوں کے جام سے
بانہوں میں بھرنے کے لیے بیتاب خود ہے تو
مجھ سے لپٹنے کے لیے اترا ہے بام سے
میں کس ادا سے تجھ سے چھڑاتا ہوں اپنا ہاتھ
تو میرا ناز اٹھاتا ہے کس اہتمام سے
سر بھی جھکا دے توٗ تو پلٹ کر نہ دیکھوں میں
تیرے تئیں ہوں اتنا گریزاں سلام سے
توہین تیرے حسن کی کرتی ہے بے قرار
تسکینِ دل نہ ہوگی مجھے انتقام سے
جب عشق ہے تو عشقِ حقیقی ہی ٹھیک ہے
اچھا ہے توڑ ڈالیے رشتہ حرام سے

0
10