ہو خواب اگر پختہ، بکھرنے کے نہیں ہیں
بھٹکائیں اسے لاکھ ،بھٹکنے کے نہیں ہیں
جب رونق محفل ہی اجڑ جانے لگی ہو
"ہم خود ہی مری جان سنورنے کے نہیں ہیں"
رکھتے ہیں جو پاکیزگی باطن میں بسائے
شیطاں کے وساوس سے، بہکنے کے نہیں ہیں
دشوار ہو راہیں، ہو کٹھن خوب یہ منزل
مقصد سے مگر اپنے پلٹنے کے نہیں ہیں
کر پائیں نہ گرویدہ پرستاروں کو ناصؔر
کچھ زخم یہ ایسے ہیں جو بھرنے کے نہیں ہیں

0
51