برپا ہو لاکھ کوئی یہ طوفان سامنے
بن کے سبھی ڈٹیں گے جو چٹان سامنے
ہرگز نہ خواب اپنے فراموش ہو سکے
چاہے حسین آئے شبستان سامنے
حزن و ملال کچھ نہ رہ پاتے ہیں دل میں تب
رہتے ہیں جب یہ رنگ گلستان سامنے
پر خار رہ گزر ہو، خموشی ہو ہر طرف
وحشت ستائے گر ہو بیابان سامنے
نام و نمود اس کو ہی ناصؔر ملی یہاں
بازی پلٹ دی جس نے ہو، میدان سامنے

0
25