برپا ہو لاکھ کوئی یہ طوفان سامنے |
بن کے سبھی ڈٹیں گے جو چٹان سامنے |
ہرگز نہ خواب اپنے فراموش ہو سکے |
چاہے حسین آئے شبستان سامنے |
حزن و ملال کچھ نہ رہ پاتے ہیں دل میں تب |
رہتے ہیں جب یہ رنگ گلستان سامنے |
پر خار رہ گزر ہو، خموشی ہو ہر طرف |
وحشت ستائے گر ہو بیابان سامنے |
نام و نمود اس کو ہی ناصؔر ملی یہاں |
بازی پلٹ دی جس نے ہو، میدان سامنے |
معلومات