دل بدل جاتے ہیں، دلدار بدل جاتے ہیں |
وقتِ کے ساتھ غم گُسارِ بدل جاتے ہیں |
مفلسی دیکھ کے کچھ یار بدل جاتے ہیں |
یار ہی کیا، در و دیوار بدل جاتے ہیں |
یہ ہے دنیا، اسے رہنا ہے رواں اور دواں |
ہاں، مگر وقت کے معیار بدل جاتے ہیں |
حکمراں قوم کی خاطر تو بدلتے ہی نہیں |
تخت کی حرص میں سو بار بدل جاتے ہیں |
ہم بدل جائیں تو تقدیر بدل جائے گی |
حُسنِ کردار سے کردار بدل جاتے ہیں |
جب بھی ہونٹوں پہ تبسم نظر آتا ہے رئیس! |
غم میں ڈوبے ہوئے رُخسار بدل جاتے ہیں |
معلومات