دل بدل جاتے ہیں، دلدار بدل جاتے ہیں
وقتِ کے ساتھ غم گُسارِ بدل جاتے ہیں
مفلسی دیکھ کے کچھ یار بدل جاتے ہیں
یار ہی کیا، در و دیوار بدل جاتے ہیں
یہ ہے دنیا، اسے رہنا ہے رواں اور دواں
ہاں، مگر وقت کے معیار بدل جاتے ہیں
حکمراں قوم کی خاطر تو بدلتے ہی نہیں
تخت کی حرص میں سو بار بدل جاتے ہیں
ہم بدل جائیں تو تقدیر بدل جائے گی
حُسنِ کردار سے کردار بدل جاتے ہیں
جب بھی ہونٹوں پہ تبسم نظر آتا ہے رئیس!
غم میں ڈوبے ہوئے رُخسار بدل جاتے ہیں

1
151
احباب سے رہنمائی کی درخواست ہے

0