میرے خوابوں کی تعبیر تو ہی |
میں لکھتا خود تو تقدیر تو ہی |
پر کیا کہوں زخموں کو تیرے |
کہ چلے جو مجھپے وہ تیر تو ہی |
حصار میں میں قید ہوں تیرے |
کہ قفس تو اور زنجیر تو ہی |
سو ظلم تیرے مظلوم بھی تو |
کہ تیری نظروں میں اثیر تو ہی |
میں کرتا جسکی ہوں جی حضوری |
مرشد بھی تو اور پیر تو ہی |
حاوی ہے مجھ پہ جیسے بلا تو |
ہے تو ہی فتنہ اور کبیر تو ہی |
مجھے کس قدر الجھا رکھا ہے |
معصوم ہے کتنا پر شریر تو ہی |
اک تو ہی ہے بھاۓ جو دل کو |
پر دل پہ میرے لکیر تو ہی |
معلومات