وعدہ کب یار نے نبھایا ہے |
ہم کو ہر بار ہی رلایا ہے |
پنچھی پہچانتے ہیں خطرہ کو |
"جال صیاد نے بچھایا ہے" |
اُن سے اظہارِ عشق ہو تو گیا |
شور پھر کیوں بے جا مچایا ہے |
ہم سرِ شام ہی نکل پڑے ہیں |
شام ساحل پہ جو بلایا ہے |
رہ گیا اختیار کچھ نہیں اب |
خواب نے نیند سے جگایا ہے |
ہو عیاں چشمِ پُر خمار سے کچھ |
شوخ چنچل سماں جو چھایا ہے |
ہے یہ دستور پیار کا ناصؔر |
جس کو چاہا اُسے نہ پایا ہے |
معلومات