صحرا نشین تو دنیا سے فرار چاہے
دنیا پرست کیسے عشرت، قرار چاہے
ہو شوخیاں گلوں کی، ہو غنچوں کا تبسم
مشتاق دید تو گلشن میں بہار چاہے
چین و سکوں کی رغبت محبوب کو پکارے
چاہت کے آشیاں میں وہ کچھ قرار چاہے
گرداب سے نکل جائے بس سفینہ اس کا
جو کوئی بر لب طوفاں میں کنار چاہے
اپنے چمن کی خوشبو ناصؔر کہیں نہ پائی
کیوں تارک وطن اپنا ہی دیار چاہے

0
41