صحرا نشین تو دنیا سے فرار چاہے |
دنیا پرست کیسے عشرت، قرار چاہے |
ہو شوخیاں گلوں کی، ہو غنچوں کا تبسم |
مشتاق دید تو گلشن میں بہار چاہے |
چین و سکوں کی رغبت محبوب کو پکارے |
چاہت کے آشیاں میں وہ کچھ قرار چاہے |
گرداب سے نکل جائے بس سفینہ اس کا |
جو کوئی بر لب طوفاں میں کنار چاہے |
اپنے چمن کی خوشبو ناصؔر کہیں نہ پائی |
کیوں تارک وطن اپنا ہی دیار چاہے |
معلومات