چلو جانا وہاں اس پار چلتے ہیں
چلو نا آج چلتے ہیں
کسی بھی دور گاؤں میں
کہیں تاروں کی چھاؤں میں
جہاں ندیا کا پانی ہو
جہاں پیڑوں کی چھایا ہو
مجھے تنہائی میں جاناں
میرا بچپن میرا آنگن مجھے آواز دیتا ہے
چلو جاناں وہاں جائیں
افق کے پار دنیا میں
جہاں پر نیلگوں پربت ہو ، بادل ہو، ہوائیں ہوں
میں پھر بادل میں کھو جاؤں
سنو تم ڈھونڈنا مجھ کو
تمہارے سامنے دھیرے سے میں جھیلوں میں اتروں گی
مجھے تم دیکھتے رہنا
مرے ہونٹوں پہ آنکھوں پہ
مرے چہرے پہ زلفوں پہ
نظم یا پھر رباعی ہو
سنو کوئی غزل لکھنا
کہ پھر جب چودھویں کا چاند ہو گا چاندنی ہوگی
تو پھر تم دیکھنا خاموشیوں کی بھی زباں ہوگی
تیرے پہلو میں بیٹھوں
تم میرے شانے پہ سر رکھنا
کوئی بھی دھن بجا لینا
میں تم میں ساز چھیڑوں گی
کوئی سنگیت تم کہنا
میں نغمے گنگناؤں گی
کہ ان کھلتے نظاروں میں
محبت کے اشاروں میں
سنو ہم جھوم جائیں گے
سنو ہم بھول جائیں گے
تو کچھ لمحے
حیاتِ جاں کے سارے غم
نظر انداز کر کے ہم بھی دیکھیں گے
بھلا کے ہم بھی دیکھیں گے
چلو نا آج چلتے ہیں
کہ اس دشتِ مشقت میں
کہ اس کارِ ریاضت میں
بہت ہی تھک گئی ہوں میں
چلو جاناں وہاں اس پار چلتے ہیں

0
16