ہر حال ہم کو جینا ہے یاں بندگی کے ساتھ
ورنہ بے موت مرنا ہے شرمندگی کے ساتھ
دل کے قریب تھے جو وہی آج ہیں خفا
"ملنے کو ہم سے آئے مگر بے دلی کے ساتھ"
جو شکر کرتے ہیں وہ عنایت کو پاتے ہیں
جیسے یہ شاکرین نبھاتے کمی کے ساتھ
ہمت میں ہی چھپا ہوا ہے راز فتح کا
دشوار کامرانی لگے بزدلی کے ساتھ
منڈلانے لگتے ابر یہ ناصؔر ستم کے جب
تہوار پڑتے پھر ہیں منانے غمی کے ساتھ

0
49