ہم عدو کو اَمَانِ وَفا دیتے ہیں
بے وفا کو نظر سے گِرا دیتے ہیں
تحفہ ہی تھا اسی سے نصیبِ مِلَن
آج اس چاہ کو ہم بھُلا دیتے ہیں
ہم سے جو پوچھتے ہیں صنم کی وفا
چشمِ نم سے زبانی سُنا دیتے ہیں
شہرِ محبوب میں گردشی باد کو
اپنے دل سے پیامِ وفا دیتے ہیں
جس جگہ یارِ رنگت نظر آئے ہے
اس جگہ دل کو ہم ہی لُٹا دیتے ہیں
ہر سَحَر میں بنا کے ترے عکس کو
اپنے دل کو میاں خود سَزَا دیتے ہیں
دعوے جو برملا کرتے ہیں وہ بُہت
ہم ہیں کیا آج اُن کو بَتا دیتے ہیں
جو رضؔی سے کرے دل سے نفرت بہت
وقت آنے پر بدلا چُکا دیتے ہیں

0
1
138
واہ

0